Monday, December 3, 2018

"سعودی عرب کی ھسٹری"



"سعودی عرب کی ھسٹری"

عرب شریف میں 1930ء تک ترکی کے سُنی مسلمانوں کی حکومت تهی.
جسے خلافتِ عثمانیہ کے نام سے جانا جاتا تھا. طاقت ور ترین خلافتِ عثمانیہ کی وجہ سے دنیا بھر کے کافروں پر اسلام اور مسلمانوں کا بہت  دبدبہ تھا، کیونکہ جب بهی دنیا میں کہیں مسلمانوں پر ظلم و ستم هوتا، تو ترکی حکمران فوراً اس کا منہ توڑ جواب دیتے.
امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر کے اسلام دشمن عیسائیوں اور یہودیوں کو اگر کسی سے خطرہ تھا تو تو وہ خلافتِ عثمانیہ سے تها.
مسلمانوں کے دشمنوں کو معلوم تها کہ جب تک خلافتِ عثمانیہ قائم هے، هم مسلمانوں کا کچهہ نہیں بگاڑ سکتے هیں.
اسی لئے کافروں نے خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کی سازش شروع کی.
انگریزوں نے سب سے پہلے ایک ایسے عیسائی شخص (نام: لارینس) کو کهڑا کیا جو کہ عربی زبان کا ماہر تھا، وہ ایسی عربی بولتا تها کہ کسی کو اس پر شک تک نہیں ہوتا کہ عربی ہے یا عیسائی. 
اس نے عرب کے لوگوں کو خلافتِ عثمانیہ کے خلاف یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی کہ تم عربی هو اور یہ ترکی عجمی یعنی غیرعربی هیں، عربوں کے حکمران صرف عرب ہی ہوسکتے ہیں۔ عجمی کی حکومت کو ہم کیسے برداشت کر رهے هیں مگر اس وقت کے غیورعرب سنیوں نے اس کی حقیقت جان لی اور اس کی ایک نہ مانی.
یہ شخص "لارنس آف عربیہ" کے نام سے مشہور هوا
(مزید تفصیلات کیلئے آپ لارنس آف عربیہ لکهہ کر گوگل پر سرچ کرسکتے ہیں)
لارینس آف عربیہ کی ناکامی کے بعد پهر انگریزوں نے ایک اور شخص کو اپنی سازش کیلئے تیار کیا، جس کا نام "همفرے" تها
(آپ گوگل پر همفرے کو بھی سرچ کرکے تفصیلات جان سکتے هیں)
همفرے اپنی سازش کی کامیابی کیلئے عربوں میں سے دو شخص کو چُنا، ایک شیخ نجدی ابن عبدالوهاب اور دوسرا نجد کا سب سے بڑا لٹیرا، جس کا نام ابن سعود تھا.. 
همفر نے شیخ نجدی کو مالی امداد اور ابن سعود کو عرب کا حکمران بنانے کا لالچ دیا... 
پهر کیا تھا، ھمفرے کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ابن سعود نے انگریزوں سے ملے ہتھیاروں کی مدد سے عرب شریف میں خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا... 
مکہ شریف، مدینہ شریف اور طائف کے لاکھوں سُنی مسلمان کو ابن سعود نے اپنی فوج کے هاتهوں قتل کروائے... 
جب ترکی نے دیکها کہ شیخ نجدی اور ابن سعود انگریزوں کے آلہء کار بن کر همیں عرب سے نکالنے اور خود عرب پر حکومت کرنے کے لیے مکہ شریف، مدینہ شریف اور طائف کے بے قصور سُنی مسلمانوں کا قتل عام کر رها هے، تب حرمین میں قتل غارت گری روکنے کیلئے ترکی نے یہ اعلان کر کیا کہ
"هم اس پاک سرزمین پر قتل و غارت پسند نہیں کرسکتے"
لہٰذا هم حرمین شریفین کی حکمرانی چھوڑ رہے ہیں... 
پهر کیا، 23 ستمبر 1930 کو عرب شریف پر نجدیوں کا قبضہ ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کا زوال بھی شروع هوا... 
نبی کے دور سے چلا آرہا عرب شریف کا نام "حجازمقدس" کو اسلامی تاریخ میں پہلی بار بدلا گیا... عرب شریف کا بدنام زمانہ ریگستانی لٹیرا ابن سعود نے حجاز مقدس کا نام بدل کر اپنے نام پر سعودی عرب رکهہ دیا... 
جنت البقیع اور جنت المعلی میں 1400سالوں سے بنے صحابہ کرام اور اهل بیت  کے مزارات پر شیخ نجدی ابن عبدالواہاب کے حکم سے بلڈوزر چلایا گیا.. گنبدِ خضراء کو بھی منہدم کرنے کیلئے اس نے گرینائڈ بموں سے گنبد پر حملہ کرویا، لیکن ناکام رہا۔
حرم شریف کے جن دروازوں کے نام صحابہ اور اهل بیت کے نام پر تهے، ان دروزوں کے نام شیخ نجدی نے آل سعود کے خاندان کے افراد کے نام پر رکهوایا... 
پھر کیا تھا، نجدی حکومت قائم ہونے کے بعد یہود و نصاری کو بلا روک ٹوک عرب میں آنے جانے کی کُھلی چھوٹ مل گئی... آج بھی مکہ شریف میں انگریز فوج کا ملیٹری پیس قائم اور اور انھیں نجدی حکومت کی طرف سے سور کا گوشت اور شرب، جو کہ انگریز فوج کی بنیادی ضرورت ہے، مہیا کی جاتیں ہیں۔ 
یا رہے، اسلامی نظامِ حکومت خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرکے 23 ستمبر 1930 کو ابن سعود کو عرب کا بادشاہ بنایا گیا، اس دن عظیم الشان جشن کا اہتمام هوا، جس میں امریکہ، برطانیہ اور دوسرے ملکوں کافر حکمرانوں نے شرکت کرکے خوب جشن منایا... 
1930 تک جس عرب شریف کے نام سے ساری دنیا کے یہود و نصاری کانپتے تهے، سعودی عرب بننے کے بعد وه امریکہ کے اشارے پر ناچنے لگا... سعودی عرب نے مسلمانوں کو دنیا کی کمزور ترین قوم بنادیا، جس کی وجہ سے مسلمان آج ساری دنیا میں الیل و رسواء ہے، ہر جگہ مسلمان ستائے جارہے ہیں، مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے۔ لیکن پھر بھی سعودی عرب کے نجدی حکمران اپنی عیاشیوں میں مست امریکہ کی غلامی کرتے جارہے ہیں۔
یہود و نصاری کی اس ناپاک سازش کا ذکر کرتے هوئے "علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے کلام میں لکها هے"۔
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدیﷺ اس کے دل سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کر فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز اور یمن سے نکال دو
بحوالہ: تاریخ نجد و حجاز (مصنف: مفتی عبدالقیوم قادری)

No comments:

Post a Comment